منگل، 23 فروری، 2021

غزل: زمانے سے اخلاق و کردار گم ہے

0 تبصرے
 زمانے سے اخلاق و کردار گم ہے
ہوس اور مطلب میں ایثار گم ہے

شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے

میں عدسہ اٹھا کر خبر ڈھونڈتا ہوں
کہ اب اشتہاروں میں اخبار گم ہے

ہوا بے وفائی کی ایسی چلی ہے
وفا کی طلب ہے، وفادار گم ہے

بچائے کوئی ناخدا بھی تو کیسے
کہ امت کی نیّا کی پتوار گم ہے

ہوئی بزدلی رہنماؤں پہ طاری
کہ سر تو سلامت ہے، دستار گم ہے

نہیں کوئی جو ظلم کو ظلم کہہ دے
زبانیں ہیں موجود، اظہار گم ہے

بنی زندگی دوڑ سرمایے کی اب
زیادہ کی خواہش میں معیار گم ہے

سرابوں کے ہم ہیں تعاقب میں تابشؔ
ہمارے یہاں چشمِ بیدار گم ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی​

جمعہ، 19 فروری، 2021

نظم: اَفشُوا السَّلام (سلام کو عام کرو)

0 تبصرے
 اَفشُوا السَّلام (سلام کو عام کرو)
٭
جب بھی مِلو کسی سے تو یہ اہتمام ہو
ملتے ہی السلامُ علیکم کہا کرو

اَفشُوا السَّلام قولِ رسولِ کریمؐ ہے
یعنی سلام کو تم باہم رواج دو

دراصل السلامُ علیکم ہے اک دعا
’تم پر سلامتی ہو‘، اُردو میں گر کہو

کرنا پہل سلام میں افضل ترین ہے
کر دے کوئی سلام تو بہتر جواب دو

رستے پہ چل رہے ہو کہ بیٹھے ہو بزم میں
کرتے رہو سلام اسے، جس سے بھی ملو

تابشؔ! سلام کرنے سے بڑھتی ہیں نیکیاں
اچھا! یہ نیک کام تو پھر بار بار ہو

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

بدھ، 17 فروری، 2021

غزل: نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے

0 تبصرے

 نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے

نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے


طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت

یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے


ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی

وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے


سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے

یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے


وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت

یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے


لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل

گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے


متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ

یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے

٭٭٭

محمد تابش صدیقی​