سکونِ شب میں میسر سہانے خواب نہیں
بوقتِ شام سرہانے جو اب کتاب نہیں
ہیں پھول اور بھی تزئینِ گلستاں کے لیے
دل و نگاہ کی تسکیں فقط گلاب نہیں
متاعِ عیش، لباسِ حریر و فرشِ گل
یہ ہیں سراب، کہو لاکھ تم سراب نہیں
لزومِ راہِ وفا ہیں خلوص و قربانی
مفادِ ذات و غرض، عشق کا نصاب نہیں
اگرچہ جرم و خطا سے بھری ہے فردِ عمل
مگر خدا کی عنایات کا حساب نہیں
بغیرِ دردِ محبت، یہ زندگی ہے عبث
مجھے یہ کہنے میں ہرگز کوئی حجاب نہیں
حسینیت کے ترانے سبھی سنائیں مگر
حسینؓ بن کے دکھائے، کسی میں تاب نہیں
طریقِ اہلِ جنوں کا اعادہ کر تابشؔ
"کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں"
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
0 تبصرے :
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔