زمانے سے اخلاق و کردار گم ہے
ہوس اور مطلب میں ایثار گم ہے
ہوس اور مطلب میں ایثار گم ہے
شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے
میں عدسہ اٹھا کر خبر ڈھونڈتا ہوں
کہ اب اشتہاروں میں اخبار گم ہے
ہوا بے وفائی کی ایسی چلی ہے
وفا کی طلب ہے، وفادار گم ہے
بچائے کوئی ناخدا بھی تو کیسے
کہ امت کی نیّا کی پتوار گم ہے
ہوئی بزدلی رہنماؤں پہ طاری
کہ سر تو سلامت ہے، دستار گم ہے
نہیں کوئی جو ظلم کو ظلم کہہ دے
زبانیں ہیں موجود، اظہار گم ہے
بنی زندگی دوڑ سرمایے کی اب
زیادہ کی خواہش میں معیار گم ہے
سرابوں کے ہم ہیں تعاقب میں تابشؔ
ہمارے یہاں چشمِ بیدار گم ہے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی