جمعرات، 11 مارچ، 2021

غزل: جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا

0 تبصرے
 جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا
ہر نیا زخم ہے اب میرے بدن پر پھایا

شمعِ احساس کو ہے ایک شرر کی حسرت
بے حسی کا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا

میں کہ تھا حسنِ رخِ یار کے دیدار سے خوش
میرا خوش رہنا بھی اک آنکھ نہ اُس کو بھایا

اب تو ہر شخص نظر آتا ہے مجھ سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا

جب بھی ناکام ہوا میں، تو پکارا اس کو
اس نے الجھا ہوا ہر کام مرا سلجھایا

وادیِ عشق کا رستہ بھی ہے منزل تابشؔ
میں نے دل کو ہے بہت بار یہی سمجھایا

٭٭٭
محمد تابش صدیقی​

0 تبصرے :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔