عبث ہے دوڑ یہ آسائشِ جہاں کے لیے
کہ یہ جہان بنا ہی ہے امتحاں کے لیے
ہوا کی زد میں نشیمن ہے اب تو ڈر کیسا
چنی تھی شاخِ بلند اپنے آشیاں کے لیے
ہے سر پہ خاک، پھٹے ہونٹ اور گریباں چاک
"یہ اہتمام ہے کیوں؟ کس لیے؟ کہاں کے لیے؟"
وہ آبیاری کرے یا کوئی کلی مسلے
بنا ہے باغ ہی سارا یہ باغباں کے لیے
ہے شور تب سے مری بے حسی کا دنیا میں
بچا لیے تھے کچھ آنسو غمِ نہاں کے لیے
نکھار آتا ہے خصلت میں نقد سے تابشؔ
اسی لیے میں دعاگو ہوں ناصحاں کے لیے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
0 تبصرے :
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔