پیر، 10 جون، 2019

غزل: آرزوؤں کا شجر اک ہم کو بونا چاہیے

0 تبصرے
آرزوؤں کا شجر اک ہم کو بونا چاہیے
زندہ رہنے کے لیے اب کچھ تو ہونا چاہیے

ضبطِ پیہم سے کہیں پتھر نہ ہو جائے یہ دل
صبر اچھی شے ہے لیکن غم پہ رونا چاہیے

مستعد رہنا ہے گر، لازم ہے عجلت سے گریز
لمبی راہوں کے مسافر کو بھی سونا چاہیے

ہر کس و ناکس کو اپنے دل میں دیتا ہے مقام
مجھ کو بھی تیرے دیارِ دل میں کونا چاہیے

مَیل دل کا مانگتا ہے شرمساری کا خراج
رات بھر تابشؔ اسے اشکوں سے دھونا چاہیے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی​

0 تبصرے :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔