سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں
آ گئی راس ان کو بھی شامِ خزاں
ہم بہاروں سے مایوس کیا ہو گئے
دیس میں بڑھ گئے یونہی دامِ خزاں
غم ضروری ہے قدرِ خوشی کے لیے
ہے یہی غمزدوں کو پیامِ خزاں
دن بہاروں کے آ کر چلے بھی گئے
ہم تو کرتے رہے اہتمامِ خزاں
گر کلامِ بہاراں ہے گل کی مہک
تو ہے پتوں کی آہٹ کلامِ خزاں
سوکھے پتے نہ کچلو یوں پیروں تلے
کچھ تو تابشؔ کرو احترامِ خزاں
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
0 تبصرے :
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔