جمعرات، 17 دسمبر، 2020

غزل: سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں ٭ تابش

0 تبصرے
 سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں
آ گئی راس ان کو بھی شامِ خزاں

ہم بہاروں سے مایوس کیا ہو گئے
دیس میں بڑھ گئے یونہی دامِ خزاں

غم ضروری ہے قدرِ خوشی کے لیے
ہے یہی غمزدوں کو پیامِ خزاں

دن بہاروں کے آ کر چلے بھی گئے
ہم تو کرتے رہے اہتمامِ خزاں

گر کلامِ بہاراں ہے گل کی مہک
تو ہے پتوں کی آہٹ کلامِ خزاں

سوکھے پتے نہ کچلو یوں پیروں تلے
کچھ تو تابشؔ کرو احترامِ خزاں
٭٭٭
محمد تابش صدیقی​

نظم: ٹوٹا ہوا تارا ٭ تابش

0 تبصرے

 نظم: ٹوٹا ہوا تارا

٭​

رات خاموش ہے، تاریک فضا ہے ہر سو
دور افق پر کوئی تارا ہے مگر ٹوٹا ہوا
دل یہ کہتا ہے اسے پاس بلا لوں اپنے
اور پھر دیر تلک، دیر تلک باتیں کروں
باتوں باتوں میں بکھرنے کا سبب پوچھ لوں میں
شاید اس دل کے بکھرنے کا سبب مل جائے
یا ہمیں غم سے بہلنے کا سبب مل جائے
اسی اثناء میں یہ تاریکیِ شب چھٹ جائے

٭٭٭

محمد تابش صدیقی

اتوار، 11 اکتوبر، 2020

نظم: بِنائے امید

0 تبصرے

بِنائے امید

٭​

کبھی جب زندگی کی تلخیاں مجھ کو ستاتی ہیں

کبھی ناکام ہونے پر قدم جب لڑکھڑاتے ہیں

کبھی مایوس ہو کر جب میں ہمت ہار جاتا ہوں

کبھی جب کوئی غم دل پر اثر اپنا دکھاتا ہے

تو ایسے میں

کلامِ پاک میں اللہ کا فرماں

مجھے پھر یاد آتا ہے

مری ہمت بندھاتا ہے

امید اک یہ دلاتا ہے

”کسی انسان پر اللہ کوئی بوجھ اس کی تاب سے بڑھ کر نہیں رکھتا“

کوئی بھی غم ہو یا مشکل،

کوئی تلخی کہ ناکامی

مری برداشت کی حد سے زیادہ ہو نہیں سکتی

٭

محمد تابش صدیقی

جمعرات، 23 اپریل، 2020

نظم: زنگ آلود بینچ

0 تبصرے
نظم: زنگ آلود بینچ
٭

باغ میں زنگ آلود اک بینچ پر
کچھ فسانے لکھے ہیں، بہت پُر اثر

کتنے آنسو بہائے گئے ہیں یہاں
کتنے ہی غم بھلائے گئے ہیں یہاں
خواب کتنے سجائے گئے ہیں یہاں
کتنے ہی پَل بِتائے گئے ہیں یہاں

کوئی آتا ہے آنسو بہا جاتا ہے
کوئی سنگت کے لمحے بِتا جاتا ہے
کوئی خواب اپنے سارے سنا جاتا ہے
کوئی شب رَو بچھونا بنا جاتا ہے

بینچ غمخوار ہے غم کے ماروں کا بھی
اور ہمراز ہے کتنے یاروں کا بھی
بینچ بستر ہے بے روزگاروں کا بھی
اور پڑاؤ پرندوں کی ڈاروں کا بھی

آؤ بیٹھیں، دکھوں کی کہانی سنیں
یا پرندوں کی باتیں سہانی سنیں
کوئی تازہ کہیں، کچھ پرانی سنیں
بینچ کے بازوؤں کی زبانی سنیں

باغ میں زنگ آلود اک بینچ پر
کچھ فسانے لکھے ہیں، بہت پُر اثر
٭٭٭
محمد تابش صدیقی​