پیر، 3 ستمبر، 2018

فرینڈ لِسٹ

0 تبصرے
انسان کی فطرت میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ عادت رکھی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے سے کسی نہ کسی طور ہم آہنگ فرد میں کشش محسوس کرتا ہے اور دوست بناتا ہے۔ وہ ہم آہنگی عمر میں برابر ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ ایک جیسے خیالات کا ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ ایک جیسے حالات کا ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ تعلیم میں ایک ساتھ ہونا بھی ہو سکتی ہے، اور بے شمار دیگر وجوہات کی بنا پر بھی ہو سکتی ہے۔

ایک چھوٹا بچہ بھی دوست بناتا ہے۔ کبھی آپ بچے کو کسی دکان یا مجمع والی جگہ پر لے کر جائیں، آپ کا بچہ، اپنے ہم عمر بچوں میں کشش محسوس کرے گا۔ ان کی طرف مسکرا کر دیکھے گا، آگے جا کر ہاتھ لگا کر دیکھے گا، ایک طرح سے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجے گا۔ جواب میں وہ بچہ یا تو جوابی مسکراہٹ کے ساتھ ریکوئسٹ قبول کر لے گا، یا پھر خوف یا غصہ کے ساتھ ریکوئسٹ کو رد کرے گا اور اپنے والدین کے پاس بھاگ جائے گا۔ بچہ کسی بڑے کو ریکوئسٹ نہیں بھیجے گا۔ ہاں اگر کوئی بڑا اس بچے کی سطح پر آ کر اس کو منہ بنا کر دکھائے، اس کو مسکرا کر دیکھے، کوئی چاکلیٹ پیش کرے تو وہ فوراً اس کی سمت دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔

بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے، اپنے ہم جماعت بچوں سے پالا پڑتا ہے، ایک دوسرے سے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ بیٹھتے ہیں، اس سے دوستی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی، قبول اور رد کی جاتی ہے۔ کچھ سے دوستی، کچھ سے خار، تو کچھ سے خوف والا تعلق بن جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ دوست بنانے کے معیارات میں تبدیلی اور اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جس میں کچھ عمل دخل معاشرے اور کچھ گھر اور تعلیمی ادارے کی تربیت کا بھی رہتا ہے۔
اور ملاقات کا کوئی نہ کوئی سبب ظاہری بھی ہوتا ہے، یعنی ہم جماعت ہونا، ہمسایہ ہونا، ہم پیشہ ہونا، وغیرہ۔

کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہوتی ہے، جس میں ہم آہنگی کی بنیاد پر دوستی قائم ہوتی ہے۔ چاہے دیگر معاملات میں اختلاف یا شدید اختلاف ہو۔ اور وہ اختلاف آپ کی دوستی پر اتنا اثر انداز اس لیے نہیں ہوتا کہ دوستی کی وجہ اپنی جگہ برقرار ہوتی ہے۔ مگر کبھی دوستی کی بنیادی وجہ میں ہی اختلاف آ جائے تو دوستی قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ حقیقی دنیا میں آپ کا کوئی دوست ایسا بن جائے، جس سے ہم آہنگی کسی بھی سطح پر نہ ہو۔
آپ جب کسی ایک دوست سے بات کرتے ہیں تو کسی خاص فریکوینسی پر کرتے ہیں، کسی دوسرے سے کرتے ہیں تو کسی اور۔ ایک دوسرے کے مزاج اور عمر کے مطابق بات کرتے ہیں۔ اختلافی امور پر بات کرتے ہوئے دوسرے کا رد عمل سامنے رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں۔ کسی چھوٹے سے بات کرتے ہیں تو بات کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ کسی ہم عمر سے مختلف اور کسی بڑی عمر کے فرد سے مختلف۔

 یہ تو تھا حقیقی دنیا میں دوستی کا مختصر سا تجزیہ۔
اب آتے ہیں سوشل میڈیا کی دنیا میں فرینڈ لسٹ کیا ہے۔

اس لسٹ میں ایک تعداد تو ان حقیقی دنیا کے دوستوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ 
اس کے علاوہ یہاں پر دوستی کی کچھ دیگر وجوہات بھی موجود ہیں۔
کسی کی پوسٹ آپ کی نظر سے گزرتی ہے، جس سے آپ متاثر ہوتے ہیں اور محض ایک پوسٹ کی بنیاد پر اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔

کسی سے آپ کی براہِ راست دوستی نہیں ہوتی، مگر آپ اس کے کسی کام کے سبب مشہور ہونے کی وجہ سے اسے جانتے ہیں۔ اس کو آپ فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔

آپ کسی خاص موضوع سے متعلق کسی گروپ کے ممبر ہیں، وہاں اس موضوع پر کسی آراء سے متاثر ہونے کے سبب اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔

فیس بک از خود آپ کی دلچسپیاں، فرینڈ لسٹ میں موجود افراد کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو دوست بنانے کا مشورہ دیتا ہے، آپ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔

یا انہی میں سے کسی بنیاد پر کسی نے آپ کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی ہوتی ہے، اور آپ قبول کر لیتے ہیں۔

اب ان فرینڈز میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے کہ آپ کو نہ ان کا بیک گراؤنڈ معلوم ہوتا ہے، نہ ان کی عمر معلوم ہوتی ہے، نہ ان کی مکمل دلچسپیوں کی بابت معلوم ہوتا ہے۔ بسا اوقات رہن سہن اور معاشرت تک مختلف ہوتی ہے۔

ایسے میں جب کسی موضوع پر بات ہوتی ہے تو بظاہر ہم مزاج ہوتے ہوئے بھی دیگر عوامل کے سبب سوچنے کا انداز اور رائے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اور ایک دوسرے کو نہ جاننے کی وجہ سے اس اختلاف کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دونوں اپنے اپنے ماحول کے مطابق اس پر رائے دیتے ہیں، تو ایک دوسرے کی بات سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ نتیجتاً اختلاف کی خلیج بڑھ جاتی ہے۔

اسی طرح بعض اوقات چالیس، پچاس سال کی عمر کا فرد اٹھارہ، بیس سال کے فرد سے بحث کر رہا ہوتا ہے، جہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا ایک بڑا فرق ہونے کے سبب بحث لا حاصل، بلکہ انتشار بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ 

ایک دور ماندہ گاؤں کا فرد، ایک ساری زندگی بڑے شہر میں گزارنے والے فرد سے بات کر رہا ہوتا ہے، تو دونوں ایک دوسرے کی بات کو اپنے بیک گراؤنڈ کے مطابق سمجھنے اور دیکھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، جو عموماً رائیگاں جاتی ہے۔

آپ اپنے کچھ احباب کے ساتھ ہونے والی گفت و شنید کی بنا پر اپنی کوئی رائے پوسٹ کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان چند افراد کے علاوہ کوئی دوسرا فرد اس رائے کے پس منظر سے آگاہ نہیں ہوتا۔ جبکہ آپ کی پوسٹ سب تک پہنچتی ہے۔ اور پھر بہت سے لوگ اس رائے کا پس منظر جانے بغیر اپنی رائے دینا شروع ہو جاتے ہیں، اور آپ کے پاس اپنا سر پیٹنے کے علاوہ کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی، کہ سب کو پس منظر سمجھانا ناممکن ہوتا ہے۔

یہ ان وجوہات میں سے چند ہیں، جو سوشل میڈیا اور بالخصوص فیس بک پر روز بروز بڑھتے ہوئے اختلافات، فکری انتشار اور فرسٹریشن کا سبب ہیں۔

یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کی بات دنیا بھر میں رہنے والے افراد ایک ہی فریکوینسی پر پڑھ اور سمجھ سکیں، اور نہ ہی یہ بات ممکن ہے کہ آپ دنیا بھر کے افراد کی رائے کو ان کی فریکوینسی پر سمجھ سکیں۔

لہٰذا اپنی رائے میں توازن اور اعتدال لانا ہی انتشار اور فرسٹریشن کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

تحمل اور برداشت ہی سے آپ دوسرے کی بات کو سننے کا حوصلہ پیدا کر سکتے ہیں۔

اگر ممکن ہو سکے تو جس سے بات کر رہے ہوں، پہلے اس کے بارے میں اس سے معلوم کیجیے۔ اس کی عمر، تعلیم اور علاقہ کے بارے میں پوچھیے۔ پھر اس کے مطابق اس سے بات کیجیے، ورنہ بحث مباحثہ سے پرہیز کیجیے۔

یہ چند تدابیر اختیار کر کے آپ کم از کم اپنے آپ کو فرسٹریشن، ٹینشن جیسی جدید دور کی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں۔

یا پھر اپنی فرینڈ لسٹ پر نظرِ ثانی کیجیے اور اس کو حقیقی دنیا کی فرینڈ لسٹ کے مطابق ترتیب دیجیے۔
٭
محمد تابش صدیقی

بدھ، 7 مارچ، 2018

نظم: مجھے انجان رہنے دو

0 تبصرے
مجھے انجان رہنے دو
٭
مجھے خاموش رہنے دو
ذرا کچھ دن 
مجھے مدہوش رہنے دو
ابھی تو کچھ نہیں بگڑا
ابھی تو میرے گھر آنگن کا ہر موسم سہانا ہے
ابھی احساس دنیا کی حسیں بانہوں میں سوتا ہے

مجھے کچھ دیر رہنے دو 
طرب انگیز خوابوں میں
مجھے منزل نظر آتی ہے 
صحرا کے سرابوں میں
مجھے لاعلم رہنے دو

ابھی تو کچھ نہیں بگڑا
کہ میرا گھر سلامت ہے
ابھی احباب کی محفل میں فرحت بخش راحت ہے
ابھی میں زندگی کے رنگ اپنے گِرد پاتا ہوں

مجھے انجان رہنے دو
مجھے شام و فلسطیں کے مناظر یوں نہ دکھلاؤ
مجھے کشمیر و برما کے حقائق بھی نہ بتلاؤ

میں ڈرتا ہوں
اگر میں جان جاؤں گا
تو کیسے جھیل پاؤں گا؟ 
شعور و آگہی کا بار میں کیسے اٹھاؤں گا؟

اگر احساس زندہ ہو گیا تو پھر
مبادا میرے آنگن میں
خزاں کا رنگ غالب ہو
مجھے محفل کی رونق میں بھی ویرانی نظر آئے
مجھے پھر قہقہوں کے شور میں آہیں سنائی دیں
مجھے پھر شام کے بچوں کی چیخیں بھی سنائی دیں
مجھے کشمیر کی ماؤں کے ماتم بھی سنائی دیں
مجھے برما میں جلتے گھر، کٹی لاشیں دکھائی دیں
فلسطیں میں دھواں، بارود کے بادل دکھائی دیں

مجھے لاعلم رہنے دو
مرا احساس سونے دو
مجھے اس آگہی سے خوف آتا ہے
مجھے انجان رہنے دو
٭٭٭
محمد تابش صدیقی

منگل، 27 فروری، 2018

مختصر نظم: خواب

0 تبصرے
مختصر نظم: خواب
٭

زندگی کے کینوس پر
خواہشوں کے رنگوں سے
خواب کچھ بکھیرے تھے
وقت کے اریزر نے
تلخیوں کی پت جھڑ میں
سب کو ہی مٹا ڈالا
٭٭٭

محمد تابش صدیقی

ہفتہ، 17 فروری، 2018

نظم: ایک مجبور مسلمان کی مناجات

2 تبصرے
یا الٰہی! ترے خام بندے ہیں ہم
نفس ہی میں مگن اپنے رہتے ہیں ہم

تیری مخلوق محکوم بنتی رہے
ظلم جابر کا دنیا  میں سہتی رہے

پڑھ کے احوال مغموم ہو جاتے ہیں
پھر سے ہنسنے ہنسانے میں کھو جاتے ہیں

ظلم کو روکنے ہاتھ اٹھتے ہیں کب؟
بس دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں اب

حکمران اپنے، غفلت میں سوئے ہوئے
اپنی عیاشیوں ہی میں کھوئے ہوئے

ڈور اِن کی ہے اغیار کے ہاتھ میں
خیرِ امت ہے بیمار کے ہاتھ میں

کرب اتنا ہے، الفاظ پاتا نہیں
دل کی رنجش کا اظہار آتا نہیں

اے خدا! بھیج اپنے کرم کا سحاب
ختم دنیا سے ہو اب ستم کا یہ باب


دردِ مظلوم، تابشؔ کے دل میں جگا
بے حسی کے اندھیرے ہٹا، اے خدا!
٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: خالق سے رشتہ توڑ چلے

0 تبصرے
خالق سے رشتہ توڑ چلے
ہم اپنی قسمت پھوڑ چلے

طوفان کے آنے سے پہلے
ہم اپنے گھروندے توڑ چلے

کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی
ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے

اب کس کی معیت حاصل ہو
جب سایہ ہی منہ موڑ چلے

شاید کہ تمہیں یاد آئیں پھر
ہم شہر تمہارا چھوڑ چلے

غفلت کی نیند میں ہے تابشؔ
کوئی اس کو بھی جھنجھوڑ چلے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: وہی صبح ہے، وہی شام ہے

0 تبصرے
وہی صبح ہے، وہی شام ہے
وہی گردشوں کو دوام ہے

نہ چھپا سکا میں غمِ دروں
کہ مرا ہنر ابھی خام ہے

شبِ انتظار ہے عارضی
یہی صبحِ نو کا پیام ہے

دمِ وصل، وقفِ جنوں نہ ہو
یہ بڑے ادب کا مقام ہے

رہِ عشق ہے یہ سنبھل کے چل
بڑے حوصلے کا یہ کام ہے

وہی بے کنار سا دشت ہے
یہی منظر اپنا مدام ہے

کبھی دُکھ ملے، کبھی سُکھ ملے
یہی میرے رب کا نظام ہے

پسِ پردہ رہتے ہیں نیک خو
جو شریر ہے، سرِ عام ہے

نہیں فکر تابشِؔ کم نظر
کہ امام خیرالانامؐ ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: وفا کا اعلیٰ نصاب رستے

0 تبصرے
وفا کا اعلیٰ نصاب رستے
صعوبتوں کی کتاب رستے

ہیں سہل الفت کے رہرووں کو
ہوں چاہے جتنے خراب رستے

جو عذر ڈھونڈو، تو خار ہر سو
ارادہ ہو تو، گلاب رستے

چمک سے دھندلا گئی ہے منزل
بنے ہوئے ہیں سراب رستے

رہِ عزیمت کے راہیوں کو
گناہ مسکن، ثواب رستے

کمی ہے تیرے جنوں میں تابشؔ
جو بن گئے ہیں عذاب رستے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: جو ہونا ہم فقیروں سے مخاطب

0 تبصرے
جو ہونا ہم فقیروں سے مخاطب
تو رہنا با ادب، حسبِ مراتب

انہیں کا ہے مقدر کامیابی
اٹھائیں راہِ حق میں جو مصائب

قدم رکھا ہے جب خود ہی قفس میں
تو پھر آہ و فغاں ہے نامناسب

امیرِ وقت سے اُمّید کم ہے
بنے ہیں راہزن اس کے مصاحب

کبھی ملتا تھا علم و فن جہاں سے
ہیں مرکز جہل کا اب وہ مکاتب

ترا لہجہ ہے تھوڑا تلخ تابشؔ
نہ ہو جائیں خفا یہ ذی مناصب

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: زعم رہتا تھا پارسائی کا

0 تبصرے
زعم رہتا تھا پارسائی کا
ہو گیا شوق خود نمائی کا

چھین لیتا ہے تابِ گویائی
ڈر زمانے میں جگ ہنسائی کا

ناؤ طوفاں سے جب گزر نہ سکے
ہیچ دعویٰ ہے ناخدائی کا

خوش نہ ہو، اے ستم گرو! کہ حساب
وقت لیتا ہے پائی پائی کا

بادشاہی کا وہ کہاں رتبہ
ہے جو اس در پہ جبہ سائی کا

نیّتِ حاضری تو کر تابشؔ
غم نہ کر اپنی نارسائی کا

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے

0 تبصرے
بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے
اشک جو بہنے نہیں تھے بہہ گئے

راہِ حق ہر گام ہے دشوار تر
کامراں ہیں وہ جو ہنس کر سہہ گئے

زندگی میں زندگی باقی نہیں
جستجو اور شوق پیچھے رہ گئے

سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے

اے خدا! دل کی زمیں زرخیز کر
ابرِ رحمت تو برس کر بہہ گئے

شاد رہنا ہے جو تابشؔ، شاد رکھ
بات یہ آباء ہمارے کہہ گئے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: اِلٰہی عَفو و عطا کا تِرے اَحَق ہوں میں

0 تبصرے
اِلٰہی عَفو و عطا کا تِرے اَحَق ہوں میں
خطاؤں پر ہوں میں نادم، عَرَق عَرَق ہوں میں

کسی نے فیض اٹھایا ہے زندگی سے مری
کتابِ زیست کا موڑا ہوا وَرَق ہوں میں

یہ تار تار سا دامن، یہ آبلہ پائی
بتا رہے ہیں کہ راہی بہ راہِ حق ہوں میں

زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے مجھ سے خلوص
کہ اپنی قوم کا بھولا ہوا سبق ہوں میں

جو ذرّے ذرّے کو روشن کرے، وہ تابشِؔ صبح
افق پہ شام کو پھیلی ہوئی شفق ہوں میں

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: یونہی مایوس رہتا ہوں، اِسی میں ہے خوشی میری

0 تبصرے
یونہی مایوس رہتا ہوں، اِسی میں ہے خوشی میری
تُمھیں مسرور کرتی ہے، پریشاں خاطری میری

بتا اے چارہ گر مجھ کو، سبب کیا ایسی نسبت کا
جو دل میں درد بڑھتا ہے، تو بڑھتی ہے ہنسی میری

خدایا لاج رکھ احباب کی اندھی محبت کی
مِرے اخلاص کی خاطر، چھُپا کم مائیگی میری

یہ کچھ سطریں جو اُبھری ہیں، مِرے بحرِ تخیل میں
فقط احساس ہے میرا، نہیں ہے شاعری میری

نگاہِ التفاتِ ساقیِ کوثر کا پیاسا ہوں
مئے گُلرنگ سے کیونکر بُجھے گی تشنگی میری؟

پھنسا ہوں کارِ دنیا میں، مگر اُمّید ہے تابشؔ
کہ دربارِ رسالتؐ میں لکھی ہے حاضری میری

٭٭٭

محمد تابش صدیقی

غزل: مثلِ خورشید وہ ابھرتے ہیں

0 تبصرے
مثلِ خورشید وہ ابھرتے ہیں
عشق کی راہ میں جو مرتے ہیں

یاد اس کی سمیٹ لیتی ہے
جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں

دوستوں کو فریب دے کر ہم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں

جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
دُور سے سچ کے ہم گزرتے ہیں

پیرویِ نبیؐ تو عنقا ہے
ہم محبت کا دم ہی بھرتے ہیں

ہے یہ احسان اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو ہم سنورتے ہیں
٭٭٭ 
محمد تابش صدیقی

نعتیہ دوہے

0 تبصرے

محترمی شاکر القادری صاحب کی تحریک پر لکھے گئے۔
 
دل کے اندر میل ہے، کیسے لکھوں نعت
دو مصرعے بھی محال ہیں، اتنی ہے اوقات
٭

غافل آپؐ کی طاعت سے، عشق برائے نام
مسلم ہے یہ ظاہراً، باطن اس کا خام

ساقیِ کوثر آپؐ ہیں، شہرہ ہے یہ عام
جام پلا دیں تابشؔ کو، بن جائے اس کا کام
٭٭٭
محمد تابش صدیقی