یا الٰہی! ترے خام بندے ہیں ہم
نفس ہی میں مگن اپنے رہتے ہیں ہم
تیری مخلوق محکوم بنتی رہے
ظلم جابر کا دنیا میں سہتی رہے
پڑھ کے احوال مغموم ہو جاتے ہیں
پھر سے ہنسنے ہنسانے میں کھو جاتے ہیں
ظلم کو روکنے ہاتھ اٹھتے ہیں کب؟
بس دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں اب
حکمران اپنے، غفلت میں سوئے ہوئے
اپنی عیاشیوں ہی میں کھوئے ہوئے
ڈور اِن کی ہے اغیار کے ہاتھ میں
خیرِ امت ہے بیمار کے ہاتھ میں
کرب اتنا ہے، الفاظ پاتا نہیں
دل کی رنجش کا اظہار آتا نہیں
اے خدا! بھیج اپنے کرم کا سحاب
ختم دنیا سے ہو اب ستم کا یہ باب
دردِ مظلوم، تابشؔ کے دل میں جگا
بے حسی کے اندھیرے ہٹا، اے خدا!
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
نفس ہی میں مگن اپنے رہتے ہیں ہم
تیری مخلوق محکوم بنتی رہے
ظلم جابر کا دنیا میں سہتی رہے
پڑھ کے احوال مغموم ہو جاتے ہیں
پھر سے ہنسنے ہنسانے میں کھو جاتے ہیں
ظلم کو روکنے ہاتھ اٹھتے ہیں کب؟
بس دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں اب
حکمران اپنے، غفلت میں سوئے ہوئے
اپنی عیاشیوں ہی میں کھوئے ہوئے
ڈور اِن کی ہے اغیار کے ہاتھ میں
خیرِ امت ہے بیمار کے ہاتھ میں
کرب اتنا ہے، الفاظ پاتا نہیں
دل کی رنجش کا اظہار آتا نہیں
اے خدا! بھیج اپنے کرم کا سحاب
ختم دنیا سے ہو اب ستم کا یہ باب
دردِ مظلوم، تابشؔ کے دل میں جگا
بے حسی کے اندھیرے ہٹا، اے خدا!
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
ارے واہ۔ آپ نے تو مثنوی کو زندہ کر دیا۔
بہت خوب، تابش بھائی۔ اللہ ترقیاں نصیب فرمائے۔
آمین۔ :)