مثلِ خورشید وہ ابھرتے ہیں
عشق کی راہ میں جو مرتے ہیں
یاد اس کی سمیٹ لیتی ہے
جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
دوستوں کو فریب دے کر ہم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں
جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
دُور سے سچ کے ہم گزرتے ہیں
پیرویِ نبیؐ تو عنقا ہے
ہم محبت کا دم ہی بھرتے ہیں
ہے یہ احسان اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو ہم سنورتے ہیں
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
0 تبصرے :
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔