ہفتہ، 17 فروری، 2018

غزل: وہی صبح ہے، وہی شام ہے

0 تبصرے
وہی صبح ہے، وہی شام ہے
وہی گردشوں کو دوام ہے

نہ چھپا سکا میں غمِ دروں
کہ مرا ہنر ابھی خام ہے

شبِ انتظار ہے عارضی
یہی صبحِ نو کا پیام ہے

دمِ وصل، وقفِ جنوں نہ ہو
یہ بڑے ادب کا مقام ہے

رہِ عشق ہے یہ سنبھل کے چل
بڑے حوصلے کا یہ کام ہے

وہی بے کنار سا دشت ہے
یہی منظر اپنا مدام ہے

کبھی دُکھ ملے، کبھی سُکھ ملے
یہی میرے رب کا نظام ہے

پسِ پردہ رہتے ہیں نیک خو
جو شریر ہے، سرِ عام ہے

نہیں فکر تابشِؔ کم نظر
کہ امام خیرالانامؐ ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

0 تبصرے :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔