انسان کی فطرت میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ عادت رکھی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے سے کسی نہ کسی طور ہم آہنگ فرد میں کشش محسوس کرتا ہے اور دوست بناتا ہے۔ وہ ہم آہنگی عمر میں برابر ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ ایک جیسے خیالات کا ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ ایک جیسے حالات کا ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ تعلیم میں ایک ساتھ ہونا بھی ہو سکتی ہے، اور بے شمار دیگر وجوہات کی بنا پر بھی ہو سکتی ہے۔
ایک چھوٹا بچہ بھی دوست بناتا ہے۔ کبھی آپ بچے کو کسی دکان یا مجمع والی جگہ پر لے کر جائیں، آپ کا بچہ، اپنے ہم عمر بچوں میں کشش محسوس کرے گا۔ ان کی طرف مسکرا کر دیکھے گا، آگے جا کر ہاتھ لگا کر دیکھے گا، ایک طرح سے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجے گا۔ جواب میں وہ بچہ یا تو جوابی مسکراہٹ کے ساتھ ریکوئسٹ قبول کر لے گا، یا پھر خوف یا غصہ کے ساتھ ریکوئسٹ کو رد کرے گا اور اپنے والدین کے پاس بھاگ جائے گا۔ بچہ کسی بڑے کو ریکوئسٹ نہیں بھیجے گا۔ ہاں اگر کوئی بڑا اس بچے کی سطح پر آ کر اس کو منہ بنا کر دکھائے، اس کو مسکرا کر دیکھے، کوئی چاکلیٹ پیش کرے تو وہ فوراً اس کی سمت دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔
بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے، اپنے ہم جماعت بچوں سے پالا پڑتا ہے، ایک دوسرے سے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ بیٹھتے ہیں، اس سے دوستی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی، قبول اور رد کی جاتی ہے۔ کچھ سے دوستی، کچھ سے خار، تو کچھ سے خوف والا تعلق بن جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دوست بنانے کے معیارات میں تبدیلی اور اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جس میں کچھ عمل دخل معاشرے اور کچھ گھر اور تعلیمی ادارے کی تربیت کا بھی رہتا ہے۔
اور ملاقات کا کوئی نہ کوئی سبب ظاہری بھی ہوتا ہے، یعنی ہم جماعت ہونا، ہمسایہ ہونا، ہم پیشہ ہونا، وغیرہ۔
کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہوتی ہے، جس میں ہم آہنگی کی بنیاد پر دوستی قائم ہوتی ہے۔ چاہے دیگر معاملات میں اختلاف یا شدید اختلاف ہو۔ اور وہ اختلاف آپ کی دوستی پر اتنا اثر انداز اس لیے نہیں ہوتا کہ دوستی کی وجہ اپنی جگہ برقرار ہوتی ہے۔ مگر کبھی دوستی کی بنیادی وجہ میں ہی اختلاف آ جائے تو دوستی قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ حقیقی دنیا میں آپ کا کوئی دوست ایسا بن جائے، جس سے ہم آہنگی کسی بھی سطح پر نہ ہو۔
آپ جب کسی ایک دوست سے بات کرتے ہیں تو کسی خاص فریکوینسی پر کرتے ہیں، کسی دوسرے سے کرتے ہیں تو کسی اور۔ ایک دوسرے کے مزاج اور عمر کے مطابق بات کرتے ہیں۔ اختلافی امور پر بات کرتے ہوئے دوسرے کا رد عمل سامنے رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں۔ کسی چھوٹے سے بات کرتے ہیں تو بات کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ کسی ہم عمر سے مختلف اور کسی بڑی عمر کے فرد سے مختلف۔
یہ تو تھا حقیقی دنیا میں دوستی کا مختصر سا تجزیہ۔
اب آتے ہیں سوشل میڈیا کی دنیا میں فرینڈ لسٹ کیا ہے۔
اس لسٹ میں ایک تعداد تو ان حقیقی دنیا کے دوستوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ یہاں پر دوستی کی کچھ دیگر وجوہات بھی موجود ہیں۔
کسی کی پوسٹ آپ کی نظر سے گزرتی ہے، جس سے آپ متاثر ہوتے ہیں اور محض ایک پوسٹ کی بنیاد پر اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔
کسی سے آپ کی براہِ راست دوستی نہیں ہوتی، مگر آپ اس کے کسی کام کے سبب مشہور ہونے کی وجہ سے اسے جانتے ہیں۔ اس کو آپ فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔
آپ کسی خاص موضوع سے متعلق کسی گروپ کے ممبر ہیں، وہاں اس موضوع پر کسی آراء سے متاثر ہونے کے سبب اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔
فیس بک از خود آپ کی دلچسپیاں، فرینڈ لسٹ میں موجود افراد کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو دوست بنانے کا مشورہ دیتا ہے، آپ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔
یا انہی میں سے کسی بنیاد پر کسی نے آپ کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی ہوتی ہے، اور آپ قبول کر لیتے ہیں۔
اب ان فرینڈز میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے کہ آپ کو نہ ان کا بیک گراؤنڈ معلوم ہوتا ہے، نہ ان کی عمر معلوم ہوتی ہے، نہ ان کی مکمل دلچسپیوں کی بابت معلوم ہوتا ہے۔ بسا اوقات رہن سہن اور معاشرت تک مختلف ہوتی ہے۔
ایسے میں جب کسی موضوع پر بات ہوتی ہے تو بظاہر ہم مزاج ہوتے ہوئے بھی دیگر عوامل کے سبب سوچنے کا انداز اور رائے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اور ایک دوسرے کو نہ جاننے کی وجہ سے اس اختلاف کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دونوں اپنے اپنے ماحول کے مطابق اس پر رائے دیتے ہیں، تو ایک دوسرے کی بات سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ نتیجتاً اختلاف کی خلیج بڑھ جاتی ہے۔
اسی طرح بعض اوقات چالیس، پچاس سال کی عمر کا فرد اٹھارہ، بیس سال کے فرد سے بحث کر رہا ہوتا ہے، جہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا ایک بڑا فرق ہونے کے سبب بحث لا حاصل، بلکہ انتشار بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔
ایک دور ماندہ گاؤں کا فرد، ایک ساری زندگی بڑے شہر میں گزارنے والے فرد سے بات کر رہا ہوتا ہے، تو دونوں ایک دوسرے کی بات کو اپنے بیک گراؤنڈ کے مطابق سمجھنے اور دیکھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، جو عموماً رائیگاں جاتی ہے۔
آپ اپنے کچھ احباب کے ساتھ ہونے والی گفت و شنید کی بنا پر اپنی کوئی رائے پوسٹ کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان چند افراد کے علاوہ کوئی دوسرا فرد اس رائے کے پس منظر سے آگاہ نہیں ہوتا۔ جبکہ آپ کی پوسٹ سب تک پہنچتی ہے۔ اور پھر بہت سے لوگ اس رائے کا پس منظر جانے بغیر اپنی رائے دینا شروع ہو جاتے ہیں، اور آپ کے پاس اپنا سر پیٹنے کے علاوہ کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی، کہ سب کو پس منظر سمجھانا ناممکن ہوتا ہے۔
یہ ان وجوہات میں سے چند ہیں، جو سوشل میڈیا اور بالخصوص فیس بک پر روز بروز بڑھتے ہوئے اختلافات، فکری انتشار اور فرسٹریشن کا سبب ہیں۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کی بات دنیا بھر میں رہنے والے افراد ایک ہی فریکوینسی پر پڑھ اور سمجھ سکیں، اور نہ ہی یہ بات ممکن ہے کہ آپ دنیا بھر کے افراد کی رائے کو ان کی فریکوینسی پر سمجھ سکیں۔
لہٰذا اپنی رائے میں توازن اور اعتدال لانا ہی انتشار اور فرسٹریشن کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
تحمل اور برداشت ہی سے آپ دوسرے کی بات کو سننے کا حوصلہ پیدا کر سکتے ہیں۔
اگر ممکن ہو سکے تو جس سے بات کر رہے ہوں، پہلے اس کے بارے میں اس سے معلوم کیجیے۔ اس کی عمر، تعلیم اور علاقہ کے بارے میں پوچھیے۔ پھر اس کے مطابق اس سے بات کیجیے، ورنہ بحث مباحثہ سے پرہیز کیجیے۔
یہ چند تدابیر اختیار کر کے آپ کم از کم اپنے آپ کو فرسٹریشن، ٹینشن جیسی جدید دور کی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں۔
یا پھر اپنی فرینڈ لسٹ پر نظرِ ثانی کیجیے اور اس کو حقیقی دنیا کی فرینڈ لسٹ کے مطابق ترتیب دیجیے۔
٭
محمد تابش صدیقی
0 تبصرے :
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔