صبح صبح فیس بک پر گرمی زدہ پوسٹس کی بھرمار دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ لوگوں کو زیادہ ہی گرمی لگ رہی ہے۔
پھر دفتر کے لئے نکلا تو لگ پتہ گیا اور سوچا کہ دفتر پہنچ کر، اے۔ سی۔ آن کر کے، ذرا سکون لے کر میں بھی گرمی کی گواہی پوسٹ کر دوں گا۔
اتنے میں کورال چوک پر زیرِ تعمیر انٹر چینج کے پاس سے گزرا تو ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا اپنی ننگی پیٹھ پر اینٹیں ڈھو کر لے جا رہا تھا۔
نا معلوم اس عمر میں کتنے نفوس کا بوجھ اس بظاہر ناتواں مگر مضبوط ترین کندھوں پر ہو گا۔
اور وہ اس گرمی سے قطع نظر آج کی روٹی کے حصول کے لئے تندہی کے ساتھ اپنے کام میں مگن تھا۔
میں بےبسی کے عالم میں صرف اپنے ماتھے پر آیا پسینہ ہی پونچھ سکا۔
گرمی کا زور ٹوٹ چکا تھا۔۔۔
پھر دفتر کے لئے نکلا تو لگ پتہ گیا اور سوچا کہ دفتر پہنچ کر، اے۔ سی۔ آن کر کے، ذرا سکون لے کر میں بھی گرمی کی گواہی پوسٹ کر دوں گا۔
اتنے میں کورال چوک پر زیرِ تعمیر انٹر چینج کے پاس سے گزرا تو ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا اپنی ننگی پیٹھ پر اینٹیں ڈھو کر لے جا رہا تھا۔
نا معلوم اس عمر میں کتنے نفوس کا بوجھ اس بظاہر ناتواں مگر مضبوط ترین کندھوں پر ہو گا۔
اور وہ اس گرمی سے قطع نظر آج کی روٹی کے حصول کے لئے تندہی کے ساتھ اپنے کام میں مگن تھا۔
میں بےبسی کے عالم میں صرف اپنے ماتھے پر آیا پسینہ ہی پونچھ سکا۔
گرمی کا زور ٹوٹ چکا تھا۔۔۔
آہ!