بدھ، 17 فروری، 2021

غزل: نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے

0 تبصرے

 نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے

نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے


طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت

یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے


ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی

وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے


سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے

یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے


وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت

یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے


لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل

گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے


متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ

یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے

٭٭٭

محمد تابش صدیقی​

0 تبصرے :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔