منگل، 27 فروری، 2018

مختصر نظم: خواب

0 تبصرے
مختصر نظم: خواب
٭

زندگی کے کینوس پر
خواہشوں کے رنگوں سے
خواب کچھ بکھیرے تھے
وقت کے اریزر نے
تلخیوں کی پت جھڑ میں
سب کو ہی مٹا ڈالا
٭٭٭

محمد تابش صدیقی

ہفتہ، 17 فروری، 2018

نظم: ایک مجبور مسلمان کی مناجات

2 تبصرے
یا الٰہی! ترے خام بندے ہیں ہم
نفس ہی میں مگن اپنے رہتے ہیں ہم

تیری مخلوق محکوم بنتی رہے
ظلم جابر کا دنیا  میں سہتی رہے

پڑھ کے احوال مغموم ہو جاتے ہیں
پھر سے ہنسنے ہنسانے میں کھو جاتے ہیں

ظلم کو روکنے ہاتھ اٹھتے ہیں کب؟
بس دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں اب

حکمران اپنے، غفلت میں سوئے ہوئے
اپنی عیاشیوں ہی میں کھوئے ہوئے

ڈور اِن کی ہے اغیار کے ہاتھ میں
خیرِ امت ہے بیمار کے ہاتھ میں

کرب اتنا ہے، الفاظ پاتا نہیں
دل کی رنجش کا اظہار آتا نہیں

اے خدا! بھیج اپنے کرم کا سحاب
ختم دنیا سے ہو اب ستم کا یہ باب


دردِ مظلوم، تابشؔ کے دل میں جگا
بے حسی کے اندھیرے ہٹا، اے خدا!
٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: خالق سے رشتہ توڑ چلے

0 تبصرے
خالق سے رشتہ توڑ چلے
ہم اپنی قسمت پھوڑ چلے

طوفان کے آنے سے پہلے
ہم اپنے گھروندے توڑ چلے

کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی
ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے

اب کس کی معیت حاصل ہو
جب سایہ ہی منہ موڑ چلے

شاید کہ تمہیں یاد آئیں پھر
ہم شہر تمہارا چھوڑ چلے

غفلت کی نیند میں ہے تابشؔ
کوئی اس کو بھی جھنجھوڑ چلے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

غزل: وہی صبح ہے، وہی شام ہے

0 تبصرے
وہی صبح ہے، وہی شام ہے
وہی گردشوں کو دوام ہے

نہ چھپا سکا میں غمِ دروں
کہ مرا ہنر ابھی خام ہے

شبِ انتظار ہے عارضی
یہی صبحِ نو کا پیام ہے

دمِ وصل، وقفِ جنوں نہ ہو
یہ بڑے ادب کا مقام ہے

رہِ عشق ہے یہ سنبھل کے چل
بڑے حوصلے کا یہ کام ہے

وہی بے کنار سا دشت ہے
یہی منظر اپنا مدام ہے

کبھی دُکھ ملے، کبھی سُکھ ملے
یہی میرے رب کا نظام ہے

پسِ پردہ رہتے ہیں نیک خو
جو شریر ہے، سرِ عام ہے

نہیں فکر تابشِؔ کم نظر
کہ امام خیرالانامؐ ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی